۱۹۷۴ رسالہ ‘‘الاسلام أو الطوفان’’ کی تالیف
استاذ عبد السلام یاسینؒ کا دل ان باتوں سے جلتا تھا ، جب وہ دیکھتے تھے کہ علمائے کرام خیر خواہی اور نصیحت کا حق ادا نہیں کرتے اور اسے ضائع کرتے ہیں اور امت میں سر سے پیر تک برائی پھیل چکی ہے،بادشاہ مراکش سے اچھے روابط کی وجہ سے آپؒ نے خاموشی سے کچھ دعوتی خطوط بھیجے انہیں بھیجے ، لیکن بادشاہ نے سرد مہری کا ثبوت دیا،جس سے آپؒ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اورامت کے اس دینی انحراف ، اس کی ذلت و رسوائی ، حکماء کی سرکشی اور غرور و تکبراور ذمہ دار حضرات کی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا اور آپؒ اپنے رب کے سامنے عرصہ تک روتے رہے،پھر آپ نے اللہ سبحانہ و تعالی سے استخارہ کیا کہ ایک کھلا خط ایوان مملکت تک پہونچائیں گے، جس پر انہیں شرح صدر ہو گیا، یہ واقعہ سن ۱۳۹۴ھ مطابق ۱۹۷۴ کا ہے۔