۱۹۶۶شیخ الحاج العباس قادری سے ملاقات
۱۹۶۶ میں پیشہ ورانہ استحکام اورسماجی ترقی کے باوجود امام عبد السلام یاسینؒ کو اپنی زندگی میں کسی بڑی تبدیلی کا انتظار تھا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ‘‘الاحسان’’ میں کیا ہے،لکھتے ہیں:‘‘میں عمر کی چالیسویں بہارمکمل کر رہا تھااس وقت رب العالمین نے میرے دل میں مؤمنین کے لئے ایک درد اور تڑپ پیدا کی، دل بے قرار ہو گیا اور آخرت کی فکر دامن گیر ہوگئی ، مجھے لگا میں اس جستجو میں کھنچتاچلا جا رہا ہوں، اے پروردگار!آپ تک پہونچنے کا کیا راستہ ہے؟میں کتابوں میں اپنا مدعا تلاش کرنے لگا، مگر ان سب نے مجھے راہ سلوک میں کسی کا ہاتھ تھامنے سے روکا، میں آپ کے سوا کس سے مدد مانگوں پروردگا؟ اور میں شک و تردد کا شکار رہاکہ: کیا یہ اللہ کے ساتھ شرک ہے؟ لیکن جب میں ایک طویل عرصہ تک عبادت و ریاضت اور ذکر تلاوت میں مستغرق رہا تو مجھ ہر انکشاف ہوا کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کا مطالبہ رضائے الٰہی کے سوا ہے،(یعنی: اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے)، اعمال صالحہ اگر زیور اخلاص سے آراستہ ہوں اور رب ذوالجلال انہیں قبول کر لےتو حصول جنت کا سبب بنتے ہیں، لیکن وہ کو ن سی شے ہے جو مجھے مقامات احسان و عرفان الٰہی تک پہونچادے؟میری مایوسی بڑھتی جا رہی تھی، میں نے اپنی ذات کو فنا کردیا اور دعاوابتہال میں لگا رہا ، بالآٓخر اس منعم حقیقی نے مجھے ایک عارف باللہ سے ملوایا،جس کی صحبت میں میں کئی سال تک رہا، اس وقت مجھے معلوم ہواراہ مسدود ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اور کیوں یہ رکاوٹیں آتی ہیں ؟ اور انہیں کب ، کہاں اور کیسےختم کیا جا سکتا ہے؟اس نعمت عظمی پر اس پروردگار کا ہزار بار شکر ہے ، اور اللہ بہتر بدلہ دے ان اہل اللہ کو جو مخلوق کی خیر خواہی کرتے ہیں ، اور اس خیر خواہی میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتےاور نہ کسی سے طلب و سوال کرتے ہیں، بے شک اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں’’۔